+91-40-24416847
+91-40-24576772
Fax: +91-40-24503267
حیدرآباد۔ ۱۹/ جنوری۲۰۲۰ (پریس نوٹ) علوم اسلامیہ کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ میں ”مسلمانوں کو درپیش چیالنجس اور ان کا حل“ کے عنوان پر علمی مذاکرہ منعقد ہوا۔ مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری امیر جامعہ نے نگرانی کی۔ مفکر اسلام مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے صدارت فرمائی۔ اس علمی مذاکرہ میں شیوخ و اساتذہ‘علماء و طلبہ کے علاوہ اہل علم اور مرد و خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ موجودہ زمانہ کے علماء زمانہ کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہیں اور حالات پر قریبی نظر رکھتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ اس امت پر سخت حالات پہلی مرتبہ نہیں آئے‘ سابق میں کئی مرتبہ ایسے حالات پیش آچکے اور ہمارے علماء نے حکمت و بصیرت کے ذریعہ ان کا مقابلہ کیا اور عوام کے سامنے حقیقی حل پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایمان کا تحفظ سابق میں بھی ضروری تھا اور آج بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے ہمیں ان ہی خطوط پر گامزن رہنا چاہئے جو ہمارے اسلاف نے متعین کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر اکسایا جا رہا ہے اور ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کو کبھی بھی محض خاتون خانہ نہیں بنایا جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ملک کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ پردہ اس کے لئے کبھی رکاوٹ نہیں رہا۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے اس سلسلہ میں امہات المومنین اور صحابیات کی مثالیں پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین‘ اسلام کے دامن میں سب سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ خواتین کے تمام مسائل کا واجبی اور حقیقی حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ملت کی بیٹیوں کو چاہئے کہ موجودہ چیالنجس میں بھرپور کردار ادا کریں اور ان کے ایمان کو متزلزل کرنے والی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ وطن عزیز ہندوستان کو بنانے‘ سجانے اور سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کو اقوام عالم میں اعتبار بخشنے میں مسلمانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں اسکالرس کو پرمغز اور معلوماتی مقالے پیش کرنے پر مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد عظمت اللہ خان احساس کی کتاب ”دبستان جامعہ نظامیہ حیدرآباد“ کی رسم اجرائی عمل میں آئی۔ مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ نے ”وطن عزیز کا تحفظ اور مسلمانوں کا کردار“ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کے انسانیت کا تعلق کرہ ارض سے ہے۔ انہوں نے کہاکہ وطن سے محبت سنت ہے۔ انہوں نے احادیث کے حوالے سے واضح کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن سے محبت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی حب الوطنی پر شبہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے نزدیک وطن کی حیثیت معبود کی نہیں بلکہ محبوب کی ہے اگر کوئی اس نقطہ کو سمجھ جائے تو کبھی وہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھا نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وطن کا دفاع کرنا اس پر ہونے والے حملہ کا جواب دینا حب الوطنی کا حصہ اور اس کا تقاضہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں آیات بھی پیش کی۔ انہوں نے ہندوستان کی اہمیت و فضیلت کے موضوع پر مدلل گفتگو کی اور کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام جنت سے سرزمین ہندوستان پر اتارے گئے اور آپ نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اور ہندوستان سے کعبۃ اللہ کی طرف سفر کیا۔ مولانا مفتی ضیاء الدین نقشبندی نے روایات کے حوالے سے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے ایک ہزار مرتبہ مکہ مکرمہ کا سفر کیا جس میں 40 پیدل حج اور 960 عمرے کئے۔ انہوں نے کہا کہ آدم علیہ السلام ہر مرتبہ مکہ مکرمہ سے واپس ہندوستان تشریف لے آتے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے ہندوستان کو اپنا وطن بنالیاتھا۔ انہوں نے علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اولاد آدم ہندوستانی ہیں کیونکہ ان کے جد کریم آدم علیہ السلام ہندوستانی ہیں۔ شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ نے کہا کہ ہندوستان کو یہ شرف و عظمت حاصل ہے کہ آفتاب نبوت سب سے پہلے ہندوستان کے افق سے طلوع ہوا۔ کیونکہ آدم علیہ السلام روئے زمین ہند پر مبعوث ہونے والے پہلے نبی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی سرزمین یہ شرف بھی رکھتی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے پاس ہندوستان میں حاضر ہوئے اور سب سے پہلی اذان ہندوستان ہی کے سرزمین پر دی گئی اور آدم علیہ السلام نے توبہ قبول ہونے پر سب سے پہلے یہیں پر نماز ادا کی۔ انہوں نے جنگ آزادی میں علماء کی حصہ داری پر دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی اور کہا کہ علماء کرام کی کئی جماعتیں جنگ آزادی میں سرگرم رہیں اور تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس میں حصہ لیا۔ کئی اہل علم نے زبانی اور قلمی جہاد کیا۔ علامہ فضل حق خیرآبادیؒ نے 1857 میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے امام الہند مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ آزادی کے موقع پر حیدرآباد دکن کی مسلم خاتون بیگم ثریا نے بھارت کا پہلا قومی ترنگا تیار کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر مجاہدین آزادی میں علماء کے ساتھ مسلمان مرد حضرات ہی کا تذکرہ کیا جاتاہے جبکہ کئی مسلم خواتین بھی جنگ آزادی میں عملی حصہ لیا اور اپنا مال اور قربانیاں پیش کیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں کئی ایک تجاویز بھی پیش کئے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ”ہندوستان میں تقریبا سات سو چونسٹھ 764 سال مسلم حکمرانی کے باوجود تمام ادیان سے تعلق رکھنے والے افراد امن و سلامتی کے ساتھ ہندوستان میں موجود رہے۔ مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا اور نہ ان کو وطن سے بے دخل کیا اور نہ ہی مسلمانوں نے اس طرح کا کوئی مطالبہ کیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ صرف 73 سال بھی مکمل نہیں گزرے۔ اس سیکولر ملک میں بعض فرقہ پرست عناصر کی طرف سے اب مسلمانوں کو ختم کرنے اور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دستور ہند میں دیئے گئے حقوق حاصل کرنے کے لئے جمہوری طریقہ پر جدوجہد کرنے کا ملک کے ہر باشندے کو حق حاصل ہے۔ مولانا حافظ محمد خالد علی نائب شیخ الادب جامعہ نظامیہ نے ”موجودہ حالات اور ایمان کا تحفظ“ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مسلمان اپنی تاریخ کے انتہائی شدید ترین حالات سے دو چار ہیں‘ اسلام دشمن طاقتیں متحد ہو کر ان کو ظلم و ستم کا شکار بنا رہی ہیں۔ عالم اسلام اور وطن عزیز میں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ان کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے۔ ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے مختلف کوششیں کی جا رہی ہیں ان کی صفوں میں دراڑیں ڈالی جارہی ہیں اور ان کو فرقوں میں بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں تو ایک دوسرے سے دست بگریباں ہیں اور جہاں اقلیت میں ہیں وہ ظلم کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کبھی مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کبھی شریعت مطہرہ پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے کبھی مساجد کی قانونی حیثیت ختم کی جا رہی ہے کبھی دستور میں ترمیم کر کے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آخری زمانے میں اسلام دشمن اقوام کی ان سازشوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی متنبہ فرمادیا تھا۔مولانا خالد علی نے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلمان اپنے معاملہ کو پہلے اللہ رب العزت کے حوالے کریں اور پھرحکمت و حسن تدبیر اختیار کریں کیونکہ جو اللہ تعالی پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالی اس کو کافی ہوجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو چاہئے کہ برادران طن کو ساتھ لیکر آگے بڑھیں ان کے شانہ بشانہ ہو کر چلیں بحیثیت ہندوستانی ایک دھارے میں آئیں وطنیت و انسانیت کی بنیاد پر تمام ہندوستانی اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اجتماعی جدوجہد کریں‘ شہریوں کو آئین ہند میں دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات منوائیں۔ مولانا حافظ سید روف علی صدر مدرس دارالعلوم کاورم پیٹ نے جدید چیالنجس اور مسلم خواتین کی ذمہ داری کے عنوان سے مقالہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ ’ہدایت یافتہ مسلمان خاتون کی نظر میں زندگی صرف روز مرہ کے مروجہ اور مانوس اعمال کا نام نہیں بلکہ زندگی تو ایک پیغام ہے جس میں اس کی عبادت صرف ایک اللہ تعالی کے لئے ہو۔ اور رضائے الٰہی کی نیت سے دیگر ضروریات و معمولات والدین‘ ہمسایہ‘ خاوند اور اولاد وغیرہ کے ساتھ حسن سلوک و نیز گھریلو امور کو بہتر طور پر سر انجام دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں میں جنسی آورگی عام ہوئی وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکیں۔ اور تجرد پسندی نے تو کسی تہذیب کو وجود میں ہی آنے نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں اپنے کو ترقی یافتہ سمجھنے والی قوموں میں بھی موجودہ تہذیب‘ عورت اور مرد کے درمیان میں تگ ودو کرتی نظر آ رہی ہے لیکن اس حقیقت سے غائب ہے جس کے لئے فطرت نے اس کی تخلیق کی۔ موجودہ تہذیب جنسی جذبات کو اتنا ابھارا کہ انسان کے دل و دماغ پر ان کا ایسا مکمل قبضہ ہوگیا کہ لذت پسندی کا رجحان فروغ پا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اسلامی معاشرہ ہی نے عورت اور مرد کے سماجی اور جنسی تعلقات کے لئے صحیح بنیادیں فراہم کی ہیں اور کامیابی ان ہی بنیادوں پر حاصل ہوگی۔مولانا ڈاکٹر سعید بن مخاشن اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے موجودہ حالات اور سیرت طیبہ سے رہنمایانہ خطوط کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو اور ہر گوشہ نسل انسانی کی بقا اور ترقی کیلئے جامع رہنما ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول کریم علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں پورے طور پر سیاسی اور سماجی شعور پایا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کو اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں سیاسی بصیرت اور دوراندیشی بھی پیدا ہونا ضروری رہے تاکہ وہ اپنے اطراف ہونے والے انقلابات‘ ملک میں برپا ہونے والی تحریکیں اور نئے وجود میں آنے والی تبدیلیوں اور قوانین و نیز مختلف نشیب و فراز سے واقف ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیرت طیبہ سے ہمیں سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنے حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں آواز بلند کریں۔مولانا محمد انوار احمد نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔مولوی محمد اسداللہ کی قرآت اور مولوی محمد عبداللہ کی نعت شریف سے جلسہ کا آغاز ہوا۔معتمد جامعہ مولوی سید احمد علی نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔