نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت انسانی تاریخ کا عظیم انقلاب
برائی کو اچھائی میں بدلنے
کا نام ’’انقلاب‘‘، ’’خطباتِ دکن ‘‘اجلاس سے مولانا مفتی خلیل احمد کا خطاب
حیدرآباد۔/29مئی۔مولانا
مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے کہا کہ نبی آخری الزماں صلی اللہ
علیہ وسلم کی بعثت سے جو انقلاب تاریخ انسانی میں رونما ہوا اس کی نظیر پہلے
کبھی ملتی ہے اور نہ تا قیامت ایسا کوئی انقلاب دوبارہ بپا ہوسکتا ہے۔ مجلس
انوار علمیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام یہاں تراب علی خان آڈیٹوریم سالارجنگ
میوزیم میں سہ روزہ ’’خطبات دکن‘‘ کے افتتاحی اجلاس سے مولانا خلیل احمد خطاب
کررہے تھے۔ ’’سیرت طیبہ کا علمی و معاشرتی انقلاب‘‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ انقلاب دراصل ہجرت‘ حصول اقتدار‘ مادی چیزوں کو پانے کا نام
نہیں ہے اور نہ ہی شخصیتوں کی تبدیلی کا نام ہے بلکہ انقلاب حقیقتوں کی تبدیلی
کا نام ہے۔ انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ جو خرابی پہلے تھی اس کو اچھائی سے بدل دیا
جائے۔ گمراہی کو ہدایت سے‘ جہالت کو علم سے‘ بدکرداری کو اخلاق سے اور بدعملی و
فساد کو امن و سکون سے بدلنا انقلاب ہے۔ دنیا میں انقلاب دو زمروں میں تقسیم
کیا جاسکتا ہے۔ ایک انبیاء کا انقلاب ہے اور دوسرا غیر انبیاء کا انقلاب ہے۔
غیر انبیاء کا بپا کردہ انقلاب مادیاتی حدتک‘ مخصوص نظریات پر مبنی ہے اور جس
سے مخصوص علاقہ کے عوام کی زندگی میں عارضی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ غیر انبیاء
کا برپا کردہ انقلاب عام انسانیت کے لئے نفع بخش ثابت ہوا ایسی کوئی نظیر نہیں
ملتی۔ اس کے برخلاف حضرات انبیاء کا انقلاب انسانیت کے لئے تھا اور وہ علم و
عمل‘ امن وسکون کا انقلاب تھا‘ ترقی کا انقلاب تھا۔ انبیاء کے انقلاب میں دولت‘
حکومت‘ جماعت‘ مادیت کی کوئی شئے کارفرما نہیں رہی۔ رب کائنات نبی کو فوج‘
خزانے اور دنیاوی اسباب و وسائل دئیے بغیر مبعوث فرماتا ہے۔ بعثت نبی کا مقصد
حکومت قائم کرنا‘ دولت پانا نہیں ہے بلکہ انسانی زندگیوں میں انقلاب لانا ہے۔
نبی کو قوم کی بھلائی کے لئے نجات کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ رسالت زماں و مکاں کی
قید سے آزاد ہوتی ہے۔ تہذیب و تمدن کے حدود سے بالاتر ہوتی ہے۔ نبی رحمت صلی
اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے کسی محددو زمانہ یا علاقہ کے لئے مبعوث
نہیں فرمایا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب بھی حدود کے قیود میں
نہیں ہے۔ ہر زمانہ ‘ ہر قوم اور ہر تہذیب کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
انقلاب ہے۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ ایسا کوئی علم اور کوئی زبان حرام
نہیں ہے جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
قرآن مجید کو پیش فرمایا تو علوم کی تخصیص نہیں فرمائی۔ قرآن میں پائے جانے
والے علوم کو علم اراضیات‘ علم فلکیات‘ علم طب‘ علم طبعیات وغیرہ سے موسوم نہیں
کیا گیا مگر اس میں رب کائنات نے تمام علوم کا احاطہ کردیا۔ کسی صحابی نے بھی
سمندری سفر نہیں کیا ہے مگر صحابہ کرام اور تابعین نے یہ اصول وضع کئے ہیں کہ
کونسا سمندری جانور حلال ہوگا اور کونسا جانور کھانا جائز نہیں ہوگا۔ سب سے
پہلے حضرت عمر بن خطاب نے زمین کی پیمائش کروائی تھی۔ مالگذاری اور زراعت کے
اصول صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے مقرر کئے تھے۔ اسلام کی بعض
عبادتیں سورج کی گردش سے اور بعض چاند کی گردش سے جڑی ہیں۔ چاند کی گردش پر سال
کا تعین ہوتا ہے اور سال کے اختتام پر زکوٰۃ کی ادائی ہے۔ ہمارے فقہا نے سورج
اور چاند کی گردشوں سے دین کے امور پر بحث کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے نہ صرف مسواک کرنے کی تاکید کی ہے بلکہ اس کے استعمال کا طریقہ بھی سکھایا
ہے اور آج دانتوں کی صحت کے بارے میں ایک الگ شعبہ قائم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ بظاہر ایک حدیث ہے مگر اس سے کئی علوم وضع ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے آخری ایام میں جب شدت کا بخار تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی
مبارک پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں ڈالی جاتی تھیں اور قریب ہی پانی کا ایک ٹب ہوا
کرتا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور آج طب ترقی
کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ شدید بخار میں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں ہی سب سے
زیادہ موثر ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام مادیاتی ترقی کا مخالف نہیں ہے۔
اسلام ہی نے سب سے پہلے دستور اور قانون بین الممالک وضع کئے ہیں۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے دو قاصدوں میں ایک گستاخ تھا مگر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے کہا کہ قاصد کو قتل کرنے کا دستور ہوتا تھا تو میں اس کو قتل کرنے
کا حکم دیتا تھا۔ سفارتی قواعد بھی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی
حاصل ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شجر و حجر گفتگو کیا کرتے تھے
اور یہ سارے علوم ہنوز زیر تحقیق ہیں۔ پروفیسر عبدالمجید نظامی صدر مجلس انوار
علمیہ نے خیر مقدمی تقریر کی۔ اجلاس کا آغاز مولانا محمد شمس الدین صدر شعبہ
تحفیظ القرآن جامعہ نظامیہ کی قرات کلام مجید اور حافظ محمد ضمیر الدین متعلم
جامعہ نظامیہ کی نعت پاک سے ہوا۔ مولانا ضیاء الدین نقشبندی نے نظامت کے فرائض
انجام دئیے۔ اس موقع پر مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری چشتی
امیر جامعہ نظامیہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔
دین کی اشاعت ، تبلیغ کے لیے
مروجہ ذرائع ابلاغ کا استعمال انبیائے کرام کی سنت
خطبات دکن اجلاس ، سیرت
طیبہ ذرائع ابلاغ و عصر حاضر سے مولانا مفتی خلیل احمد کا خطاب
حیدرآباد۔/30 مئی۔ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ مولانا
مفتی خلیل احمد نے کہا کہ اشاعت دین و تبلیغ دین کے لئے مروجہ ذرائع ابلاغ کا
استعمال کرنا انبیاء کرام علیہ الصلواۃ والسلام کی سنت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے اعلان اور بندگان حق کو بندگی رب کی طرف بلانے کے
لئے اپنے دور کے معروف ذرائع اور وسائل کو استعمال کیا تھا۔ فی زمانہ مسلمان
بھی عصر حاضر میں دستیاب ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے دین کا پیغام عام
کریں۔ مولانا مفتی خلیل احمد کل شام سالار جنگ میوزیم میں ’’خطبات دکن‘‘ کے
دوسرے اجلاس میں ’سیرت طیبہ‘ ذرائع ابلاغ اور عصر حاضر‘‘ کے عنوان پر خطاب
کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ ذوالجلال کی قدرت یہ ہے کہ وہ ماں باپ کے بغیر
حضرت آدم علیہ السلام اور باپ کے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق کرے اور
بارش کے بغیر کھیتوں کو سرسبز وشاداب رکھے اور بغیر سورج کے روشنی ظاہر کرے مگر
اس کی یہ قدرت ہے کہ کائنات کو اسباب کی بنیاد پر چلاتا ہے۔ مولانا خلیل احمد
نے کہا کہ اصول دین کو پھیلانے کے لئے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل
’مقصد‘ ہوتا ہے اور ذریعہ تابع ہوسکتا ہے۔ زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ ذرائع بدل
سکتے ہیں مگر مقصد نہیں بدل سکتا۔ نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت
سے قبل جتنے بھی انبیاء و رسول مبعوث ہوئے تھے وہ ایک زمانہ اور علاقہ کے لئے
محدود تھے اس لئے ان کو پیغام الہیٰ کو بندگان حق تک پہنچانے کے لئے زیادہ
ذرائع کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح خالق کائنات ساری کائنات کا رب ہے اسی طرح نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساری کائنات کے لئے رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیام کو عام کرنے کی ہدایت دی مگر اس کی تبلیغ
و اشاعت کے لئے کونسا ذریعہ اختیار کرنا ہوگا وہ نہیں بتایا۔ ذرائع کے استعمال
کا اختیار اپنے حبیب کی ذات پر چھوڑدیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غار
حرا پر پہلی وحی کا نزول ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شریک حیات حضرت
خدیجتہ الکبریٰ کو آگاہ کیا۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ نے اپنے رشتہ دار حضرت ورقہ
بن نوفل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گئے چونکہ سماج میں ان کا اعتبار
ہے۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کردی۔ نبی
رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے انفرادی ملاقاتیں کیں
اور افہام و تفہیم کے ذریعہ دین کی حقیقت و صداقت کو جتلایا۔ یہی وجہ ہے کہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ابن ابی
طالب ایمان لے آئے اور پھر اس کے بعد حکم آیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوۃ
دیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اورتمام قبیلوں
کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان نبوت فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ اس دور کی یہ روایت تھی
کہ جب کسی کو کسی اہم بات کا اعلان کرنا ہوتا تو کوہ صفاء پر چڑھ کر ندا لگائی
جاتی۔ کوہ صفاء سے ندا لگائی جانے پر تمام قبیلوں کے سردار یا ان کے نمائندے
وہاں جمع ہوجاتے۔ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ مسلمہ مروج طریقوں کو اختیار کیا
جانا چاہئے تاوقتیکہ وہ ذرائع خلاف اسلام نہ ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
ہجرت مدینہ منورہ کے بعد کھجور کے درخت سے ٹیک لگاکر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے
اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے مشورہ پر منبر سے خطاب
کرنے لگے۔ صلوٰۃ کو بلانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا اور پھر اذان کا طریقہ اختیار کیا
گیا۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ دنیا کا کوئی ذریعہ اگرچہ وہ برائیوں کو
پھیلانے کا ذریعہ بھی ہوتو اس ذریعہ میں پائی جانے والی برائیوں کو چھوڑ کر اس
کا استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ سیرت طیبہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا
ہے کہ اشاعت دین کے لئے شاعری کو بھی استعمال کیا گیا اور نثر و نظم کا ذریعہ
بھی استعمال کیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو
تقویت پہنچانے اپنے زمانہ کے نامور پہلوان رکانہ سے بھی مقابلہ کرتے ہوئے اسے
پچھاڑ دیا۔ مشرکین مکہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوۃ کو روکنے میں
ناکام ہوگئے تو مجبور ہوکر یمن کے حبیب یمنی کو بلایا اور ان سے خواہش کی کہ وہ
ہادی انسانیت کو سمجھائیں۔ حضرت حبیب یمنی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو
مطالبات کئے۔ ایک یہ کہ چاند کے دو تکڑے کردکھائیں اور دوسرا یہ کہ ان کے دل
میں پوشیدہ بات بتائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شق قمر کا معجزہ صادر
ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبیب یمنی کے دل کی پوشیدہ بات بتائی بلکہ
یہ بھی بشارت دے دی کہ ان کی جو بیٹی اپاہج ہے وہ اب تندرست ہوگئی ہے۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف وفود سے بات چیت کی بلکہ نقباء بھی مقرر فرمائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ترقی و اشاعت کے لئے ہجرت بھی فرمائی۔
مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو مسجد عقباء تعمیر کروائی اور مدینہ منورہ پہنچنے
پر مسجد نبوی تعمیر فرمائی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی
تعلیم و تربیت کے لئے مدرسہ صفہ بھی قائم کیا۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا
کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجم میں دین کو پھیلانے کے لئے پہلے بادشاہوں
کو دعوۃ دین دی جس کے لئے خطوط روانہ کئے اور جب یہ بتایا گیا کہ بادشاہ بغیر
مہر کے خطوط قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر نبوت تیار فرمائی۔
سیرت طیبہ سے ہمیں یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے غیر مسلموں سے
معاہدات کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فی زمانہ مسلمانوں کو چاہئے کہ تمام
دستیاب ذرائع ابلاغ کو دین کی اشاعت و تبلیغ کے لئے استعمال کیا جائے۔ انہوں نے
کہا کہ اغیار ذرائع ابلاغ کو جھوٹ کے لئے استعمال کررہے ہیں ہم ان ذرائع کو حق
و صداقت کی اشاعت کے لئے استعمال کریں۔